سورة المعارج
ےوم آخرت کا نقشہ اس میں کھینچا گےا ہے
سورة المعارج کی آےت نمبر 3میں المعارج کا لفظ آےا ہے جس کی مناسبت سے اس سورة کا نام المعارج رکھا گےا ہے۔ےہ سورة 6,5نبوی میں مکہ معظمہ مےں نازل ہوئی۔امام قرطبی ؒ لکھتے ہےں ؛ ےہ سورة بالاتفاق مکی ہے۔ابن عباسؓ سے ےہی مروی ہے۔(تےسےر الرحمان البےان القرآن)
شےخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناءاللہ امرتسریؒ فرماتے ہےں؛?آنحضرت نے جب عذاب الٰہی سے کفار کو ڈراےا تو کفار نے پوچھا کہ عذاب الٰہی کس کو ہوگا،اُن کے حق میں ےہ سورة نازل ہوئی۔?(تفسےرثنائی)
اس سورة میں کفارمکہ کی عقیدہ آخرت پر مذاق اڑانے پر تنبےہہ کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ےوم آخرت کا نقشہ بھی کھےنچا گےا ہے۔
سےد قطب شہےد ؒ فرماتے ہےں؛اس سورة مےں انسانی نفس کی ان بےمارےوں کا علاج تجوےز کےا گےا ہے جو جاہلےت نے بشری نفوس میں پےدا کی تھیں۔قرآن کا مقابلہ مکہ میں انہی جاہل بےماریوں کے ساتھ تھا۔ےہ بےمارےاں کسی اور ملک و قوم میں اور کسی اور زمان و مکان میں بھی پےدا ہو سکتی ہےں۔دونوں قسم کی جاہلےت میں سطحی فرق ضرور ہے مگر گہرائی اےک جےسی ہے۔ظواہر اےک جےسے ہےں مگر حقائق مختلف ہےں۔اِس علاج کو جو اس سورة میں ہے ہم اےک سست رو مگر طوےل علاج کر سکتے ہےں ےا بالفاظ دےگر ےوں کہ اسلام اور جاہلےت مےں اےک طوےل اور شےدع جنگ برپا ہوئی تھی جس کی جھڑپوں مےں سے اےک جھڑپ اس سورة سے ظاہر ہو رہی ہے۔?(تفسےر فی ظلال القرآن)
مولانا سےد مودودیؒ فرماتے ہےں؛?اس سورة میں کفار کو تنبےہہ اور نصےحت کی گئی ہے جو قےامت اور آخرت اور دوزخ اور جنت کی خبروں کا مذاق اُڑاتے تھے اور رسول کو چےلنج دےتے تھے کہ اگر تم سچے ہو اور تمہےں جھٹلا کر ہم عذاب جہنم کے مستحق ہو چکے ہےں تو لے آو? وہ قےامت جس سے تم ہمےں ڈراتے ہو۔ےہ سورة سب اُسی چےلنج کے جواب میں ہے۔?(تفہےم القرآن)
اس سورة میں قےامت سے کفار مکہ کے انکار پر تنبےہہ کے علاوہ چند چےزوں کی تاکید اور تعلےم بھی دی گئی ہے وہ ےہ ہےں۔
٭جن کے مالوں میں مقررہ حصہ ہے۔
٭جو لوگ انصاف کے دن پر ےقےن رکھتے ہےں ۔(26)
٭اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی (حرام سے)حفاظت کرتے ہےں ہاں ان کی بےوےوں اور لونڈےوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہےں انہےں کوئی ملامت نہیں۔(30,29)
٭اور جو اپنے اپنی گواہےوں پر سےدھے اور قائم رہتے ہےں۔(33)
٭اور جو اپنی امانتوں اور اپنے قول و قرار کا پاس رکھتے ہیں (32)
٭اور جو لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہےں ۔(34)
ان سب چےزوں کے بعد فرماےا؛جو لوگ ان چےزوں کی پابندی کرتے ہےں وہ جنت میں جائےں گے۔گوےا مثبت طور پر جہاں بھلائےوں کا امر فرماےا ہے وہاں منکرات سے روکا بھی ہے۔ان چےزوں مےں سے نماز اور عقےدہ آخرت کے علاوہ سب امور حقوق بندگان خدا سے متعلق ہےں نماز اور عقےدہ آخرت کا ذکر غالباً اس وجہ سے ہے کہ صالح ماحول اور صالح معاشرہ بغےر ان دو چےزوں کے پےدا نہےں ہو سکتا۔جو لوگ صالح معاشرہ پےدا کرنے کی تو کوشش کرتے ہےں لےکن عقےدہ آخرت پر قائم نہےں،نماز کی ادائےگی کے پابندنہیں ۔اےسے ہی لوگ جو تسبےح اور نماز میں تو لگے رہتے ہےں لےکن حقوق کی ادائےگی میں اندھے ہیں ،صالح معاشرہ کےلئے کوئی عملی جدو جہد نہےں کرتے۔سورة کے آخر میں کفار مکہ کو خبردار کےا گےا ہے کہ اگر تم رسول اللہ کی دعوت کو قبول نہ کروں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور رسول کو تلقین کی گئی ہے کہ انکے تمسخر کی پرواہ کئے بغےر آپ اپنا کام جاری رکھےں ےہ اگر قےامت کی ذلت دےکھنے پر بضد ہےں ،اُنہےں اُن کے حال پر چھوڑ دو ےہ اپنا برا انجام خود دےکھ لےں گے
ےوم آخرت کا نقشہ اس میں کھینچا گےا ہے
سورة المعارج کی آےت نمبر 3میں المعارج کا لفظ آےا ہے جس کی مناسبت سے اس سورة کا نام المعارج رکھا گےا ہے۔ےہ سورة 6,5نبوی میں مکہ معظمہ مےں نازل ہوئی۔امام قرطبی ؒ لکھتے ہےں ؛ ےہ سورة بالاتفاق مکی ہے۔ابن عباسؓ سے ےہی مروی ہے۔(تےسےر الرحمان البےان القرآن)
شےخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناءاللہ امرتسریؒ فرماتے ہےں؛?آنحضرت نے جب عذاب الٰہی سے کفار کو ڈراےا تو کفار نے پوچھا کہ عذاب الٰہی کس کو ہوگا،اُن کے حق میں ےہ سورة نازل ہوئی۔?(تفسےرثنائی)
اس سورة میں کفارمکہ کی عقیدہ آخرت پر مذاق اڑانے پر تنبےہہ کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ےوم آخرت کا نقشہ بھی کھےنچا گےا ہے۔
سےد قطب شہےد ؒ فرماتے ہےں؛اس سورة مےں انسانی نفس کی ان بےمارےوں کا علاج تجوےز کےا گےا ہے جو جاہلےت نے بشری نفوس میں پےدا کی تھیں۔قرآن کا مقابلہ مکہ میں انہی جاہل بےماریوں کے ساتھ تھا۔ےہ بےمارےاں کسی اور ملک و قوم میں اور کسی اور زمان و مکان میں بھی پےدا ہو سکتی ہےں۔دونوں قسم کی جاہلےت میں سطحی فرق ضرور ہے مگر گہرائی اےک جےسی ہے۔ظواہر اےک جےسے ہےں مگر حقائق مختلف ہےں۔اِس علاج کو جو اس سورة میں ہے ہم اےک سست رو مگر طوےل علاج کر سکتے ہےں ےا بالفاظ دےگر ےوں کہ اسلام اور جاہلےت مےں اےک طوےل اور شےدع جنگ برپا ہوئی تھی جس کی جھڑپوں مےں سے اےک جھڑپ اس سورة سے ظاہر ہو رہی ہے۔?(تفسےر فی ظلال القرآن)
مولانا سےد مودودیؒ فرماتے ہےں؛?اس سورة میں کفار کو تنبےہہ اور نصےحت کی گئی ہے جو قےامت اور آخرت اور دوزخ اور جنت کی خبروں کا مذاق اُڑاتے تھے اور رسول کو چےلنج دےتے تھے کہ اگر تم سچے ہو اور تمہےں جھٹلا کر ہم عذاب جہنم کے مستحق ہو چکے ہےں تو لے آو? وہ قےامت جس سے تم ہمےں ڈراتے ہو۔ےہ سورة سب اُسی چےلنج کے جواب میں ہے۔?(تفہےم القرآن)
اس سورة میں قےامت سے کفار مکہ کے انکار پر تنبےہہ کے علاوہ چند چےزوں کی تاکید اور تعلےم بھی دی گئی ہے وہ ےہ ہےں۔
٭جن کے مالوں میں مقررہ حصہ ہے۔
٭جو لوگ انصاف کے دن پر ےقےن رکھتے ہےں ۔(26)
٭اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی (حرام سے)حفاظت کرتے ہےں ہاں ان کی بےوےوں اور لونڈےوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہےں انہےں کوئی ملامت نہیں۔(30,29)
٭اور جو اپنے اپنی گواہےوں پر سےدھے اور قائم رہتے ہےں۔(33)
٭اور جو اپنی امانتوں اور اپنے قول و قرار کا پاس رکھتے ہیں (32)
٭اور جو لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہےں ۔(34)
ان سب چےزوں کے بعد فرماےا؛جو لوگ ان چےزوں کی پابندی کرتے ہےں وہ جنت میں جائےں گے۔گوےا مثبت طور پر جہاں بھلائےوں کا امر فرماےا ہے وہاں منکرات سے روکا بھی ہے۔ان چےزوں مےں سے نماز اور عقےدہ آخرت کے علاوہ سب امور حقوق بندگان خدا سے متعلق ہےں نماز اور عقےدہ آخرت کا ذکر غالباً اس وجہ سے ہے کہ صالح ماحول اور صالح معاشرہ بغےر ان دو چےزوں کے پےدا نہےں ہو سکتا۔جو لوگ صالح معاشرہ پےدا کرنے کی تو کوشش کرتے ہےں لےکن عقےدہ آخرت پر قائم نہےں،نماز کی ادائےگی کے پابندنہیں ۔اےسے ہی لوگ جو تسبےح اور نماز میں تو لگے رہتے ہےں لےکن حقوق کی ادائےگی میں اندھے ہیں ،صالح معاشرہ کےلئے کوئی عملی جدو جہد نہےں کرتے۔سورة کے آخر میں کفار مکہ کو خبردار کےا گےا ہے کہ اگر تم رسول اللہ کی دعوت کو قبول نہ کروں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گااور رسول کو تلقین کی گئی ہے کہ انکے تمسخر کی پرواہ کئے بغےر آپ اپنا کام جاری رکھےں ےہ اگر قےامت کی ذلت دےکھنے پر بضد ہےں ،اُنہےں اُن کے حال پر چھوڑ دو ےہ اپنا برا انجام خود دےکھ لےں گے
©2015 Anas Rasheed, Inc.All Rights Reserved
|